شب بھلی تھی نہ دن برا تھا کوئی
جیسا جی کو ترے لگا تھا کوئی
اشک تھے کرچیاں تھیں آنکھیں تھیں
آئنہ سے امنڈ پڑا تھا کوئی
ٹوٹ کر کس نے کس کو چاہا تھا
کس کا ملبہ اٹھا رہا تھا کوئی
لاکھ آنچل ہوا کے ہاتھ میں تھے
سر برہنہ مگر کھڑا تھا کوئی
اپنے ہی سر میں ڈالنے کے لیے
خاک اپنی اڑا رہا تھا کوئی
اپنی مرضی سے کون قتل ہوا
اپنی مرضی سے کب جیا تھا کوئی
حشر برپا تھا میرے دل میں نجیبؔ
کھڑکیاں کھولنے لگا تھا کوئی

غزل
شب بھلی تھی نہ دن برا تھا کوئی
نجیب احمد