شاید کوئی نگاہ کرے میری ذات پر
دستک تو دے رہا ہوں در کائنات پر
دشمن سے کہہ رہا ہوں تری انجمن کا راز
یا پھول رکھ رہا ہوں میں شعلے کے ہات پر
اپنا بھی قتل ہم نے کئی ڈھنگ سے کیا
اب کوئی چونکتا ہی نہیں حادثات پر
بے ہوشیوں کو نیند سے نسبت ضرور ہے
کچھ خار بھی بچھا لے ردائے حیات پر
اے نورؔ وہ تو حکم سزا دے کے چل دیا
لفظوں کا سارا خون رہا میری ذات پر
غزل
شاید کوئی نگاہ کرے میری ذات پر
نور تقی نور