EN हिंदी
شانتی کی دکانیں کھولی ہیں | شیح شیری
shanti ki dukanen kholi hain

غزل

شانتی کی دکانیں کھولی ہیں

محمد علوی

;

شانتی کی دکانیں کھولی ہیں
فاختائیں کہاں کی بھولی ہیں

کیسی چپ سادھ لی ہے کوؤں نے
جیسے بس کوئلیں ہی بولی ہیں

رات بھر اب اودھم مچائیں گے
خواہشیں دن میں خوب سو لی ہیں

چل پڑے ہیں کٹے پھٹے جذبے
حسرتیں ساتھ ساتھ ہو لی ہیں

کون قاتل ہے کیا پتہ چلتا
سب نے اپنی قبائیں دھو لی ہیں

شعر ہوتے نہیں تو علویؔ نے
خون میں انگلیاں ڈبو لی ہیں