شامیانے مری غیبت میں ہوا تانتی ہے
گاؤں میں میرے نہ ہونے سے بڑی شانتی ہے
وہ بگولا ہے کہ اڑنے پہ سدا آمادہ
میں جو مٹی ہوں تو مٹی بھی کہاں مانتی ہے
دیکھنا کیسے ہمکنے لگے سارے پتھر
میری وحشت کو تمہاری گلی پہچانتی ہے
پھول بنتی ہے کلی ہنستے ہنساتے لیکن
اس کے دل پہ جو گزرتی ہے وہی جانتی ہے
میری کوشش ہے کہ دنیا کو بنا دوں فردوس
اور دنیا مجھے ناکاروں میں گردانتی ہے
ہم کو اک حال میں قسمت نہیں رہنے دیتی
کبھی مٹی میں ملاتی ہے کبھی چھانتی ہے

غزل
شامیانے مری غیبت میں ہوا تانتی ہے
مظفر حنفی