EN हिंदी
شام تک پھر رنگ خوابوں کا بکھر جائے گا کیا | شیح شیری
sham tak phir rang KHwabon ka bikhar jaega kya

غزل

شام تک پھر رنگ خوابوں کا بکھر جائے گا کیا

خوشبیر سنگھ شادؔ

;

شام تک پھر رنگ خوابوں کا بکھر جائے گا کیا
رائگاں ہی آج کا دن بھی گزر جائے گا کیا

ڈھونڈنا ہے گھپ اندھیرے میں مجھے اک شخص کو
پوچھنا سورج ذرا مجھ میں اتر جائے گا کیا

مانتا ہوں گھٹ رہا ہے دم ترا اس حبس میں
گر یہی جینے کی صورت ہے تو مر جائے گا کیا

عین ممکن ہے بجا ہوں تیرے اندیشے مگر
دیکھ کر اب اپنے سائے کو بھی ڈر جائے گا کیا

سوچ لے پرواز سے پہلے ذرا پھر سوچ لے
ساتھ لے کر یہ شکستہ بال و پر جائے گا کیا

ایک ہجرت جسم نے کی ایک ہجرت روح نے
اتنا گہرا زخم آسانی سے بھر جائے گا کیا