شام سے زوروں پہ طوفاں ہے بہت
اس کے لوٹ آنے کا امکاں ہے بہت
آئے گی نور مجسم بن کر
صورت سایہ گریزاں ہے بہت
کچھ بھی ہوں موج و ہوا کے تیور
جسم پروردۂ طوفاں ہے بہت
شاید آ پہنچے ہیں وہ اسپ سوار
شہر کا شہر ہراساں ہے بہت
جسم و جاں ورطۂ ظلمت ہی سہی
پیکر حرف درخشاں ہے بہت
زیر فرماں رہے اقلیم سخن
رہنے کو گوشۂ ویراں ہے بہت

غزل
شام سے زوروں پہ طوفاں ہے بہت
حامدی کاشمیری