EN हिंदी
شام سے زوروں پہ طوفاں ہے بہت | شیح شیری
sham se zoron pe tufan hai bahut

غزل

شام سے زوروں پہ طوفاں ہے بہت

حامدی کاشمیری

;

شام سے زوروں پہ طوفاں ہے بہت
اس کے لوٹ آنے کا امکاں ہے بہت

آئے گی نور مجسم بن کر
صورت سایہ گریزاں ہے بہت

کچھ بھی ہوں موج و ہوا کے تیور
جسم پروردۂ طوفاں ہے بہت

شاید آ پہنچے ہیں وہ اسپ سوار
شہر کا شہر ہراساں ہے بہت

جسم و جاں ورطۂ ظلمت ہی سہی
پیکر حرف درخشاں ہے بہت

زیر فرماں رہے اقلیم سخن
رہنے کو گوشۂ ویراں ہے بہت