شام رکھتی ہے بہت درد سے بیتاب مجھے
لے کے چھپ جا کہیں اے آرزوئے خواب مجھے
اب میں اک موج شب تار ہوں ساحل ساحل
راہ میں چھوڑ گیا ہے مرا مہتاب مجھے
اب تک اک شمع سیہ پوش ہوں صحرا صحرا
تجھ سے چھٹ کر نہ ملی رہ گزر خواب مجھے
ساحل آب و سراب ایک ہے منزل منزل
تشنگی کرتی ہے سیراب نہ غرقاب مجھے
میں بھی صحرا ہوں مجھے سنگ سمجھنے والو
اپنی آواز سے کرتے چلو سیراب مجھے
میں بھی دریا ہوں ہر اک سمت رواں ہوں کب سے
میرا ساحل بھی نہیں منزل پایاب مجھے
اب مجھے ڈھونڈ نہ آغوش گریزاں ہر سو
لے اڑی خاک بہا لے گیا سیلاب مجھے
شام پوچھے تو نہ کہنا کہ میں دنیا میں نہیں
لے کے پھر آئے گا اس گھر میں مرا خواب مجھے
غزل
شام رکھتی ہے بہت درد سے بیتاب مجھے
شہاب جعفری