شام خاموش ہے پیڑوں پہ اجالا کم ہے
لوٹ آئے ہیں سبھی ایک پرندہ کم ہے
دیکھ کر سوکھ گیا کیسے بدن کا پانی
میں نہ کہتا تھا مری پیاس سے دریا کم ہے
خود سے ملنے کی کبھی گاؤں میں فرصت نہ ملی
شہر آئے ہیں یہاں ملنا ملانا کم ہے
آج کیوں آنکھوں میں پہلے سے نہیں ہیں آنسو
آج کیا بات ہے کیوں موج میں دریا کم ہے
اپنے مہمان کو پلکوں پہ بٹھا لیتی ہے
مفلسی جانتی ہے گھر میں بچھونا کم ہے
بس یہی سوچ کے کرنے لگے ہجرت آنسو
اپنی لاشوں کے مقابل یہاں کاندھا کم ہے
دل کی ہر بات زباں پر نہیں آتی ہے فہیمؔ
میں نے سوچا ہے زیادہ اسے لکھا کم ہے
غزل
شام خاموش ہے پیڑوں پہ اجالا کم ہے
فہیم جوگاپوری