شام کے ڈھلتے سورج نے یہ بات مجھے سمجھائی ہے
تاریکی میں دیکھ سکوں تو آنکھوں میں بینائی ہے
احساسات کی تہہ تک جانا کتنا مشکل ہوتا ہے
ذہن و دل میں جتنا اترو اتنی ہی گہرائی ہے
رشتے ناطے باہر سے تو جسم کو گھیرے بیٹھے ہیں
روح کے اندر جھانک کے دیکھو میلوں تک تنہائی ہے
لفظوں نے ہی نشتر بن کے دل کو گہرے زخم دیئے
لفظوں نے ہی زخم دل کو ٹھنڈک بھی پہنچائی ہے
پیٹھ پہ کرتا وار تو شاید میں صدمے سے مر جاتا
میں تو خوش ہوں میں نے اس سے چوٹ جگر پہ کھائی ہے
کمروں کے بٹوارے میں اک کمرا زائد جانے دو
لیکن یہ احساس بچا لو اپنا ہی تو بھائی ہے
دیپ جلا کر دنیا والے اس تیلی کو بھول گئے
لیکن سچ ہے دیپک روشن کرتی دیا سلائی ہے
مجذوبوں کے کھیل سمجھنا سب کے بس کی بات نہیں
پہلے زخم ادھیڑ کے جانا پھر اس کی ترپائی ہے
راتیں اپنی روشن کر لو اشکوں سے شایانؔ ابھی
وقت سے پہلے اپنے سفر کی تیاری دانائی ہے
غزل
شام کے ڈھلتے سورج نے یہ بات مجھے سمجھائی ہے
شایان قریشی