شام کے آثار گیلے ہیں بہت
پھر مری آنکھوں میں تیلے ہیں بہت
تم سے ملنے کا بہانہ تک نہیں
اور بچھڑ جانے کے حیلے ہیں بہت
کشت جاں کو خشک سالی کھا گئی
موسموں کے رنگ پیلے ہیں بہت
برف پگھلی ہے فراز عرش سے
آسماں کے رنگ نیلے ہیں بہت
بیل کی صورت ہیں ہم پھیلے ہوئے
ہم فقیروں کے وسیلے ہیں بہت
میں بھی اپنی ذات میں آباد ہوں
میرے اندر بھی قبیلے ہیں بہت
لوگ بستی کے بھی ہیں شیریں صفت
میرے نغمے بھی رسیلے ہیں بہت
قیسؔ ہم جوگی ہیں اپنے شہر کے
ناگ تو ہم نے بھی کیلے ہیں بہت
غزل
شام کے آثار گیلے ہیں بہت
سعید قیس