شام غم کی سحر نہیں ہوتی
آہ بھی کارگر نہیں ہوتی
جب اٹھاتے ہیں وہ نقاب رخ
میرے بس میں نظر نہیں ہوتی
میرے زخم جگر کو وحشت میں
حاجت بخیہ گر نہیں ہوتی
اس سے امید رحم کیا کرتے
جس کی سیدھی نظر نہیں ہوتی
کشمکش میں ہوں میں مصائب کے
زندگانی بسر نہیں ہوتی
ایسے عالم میں دیکھتا ہوں میں
جب کسی کی نظر نہیں ہوتی
غیر کی سمت دیکھنے والے
کیوں توجہ ادھر نہیں ہوتی
طول کھینچا ہے یوں شب غم نے
کسی صورت سحر نہیں ہوتی
دل چراتی ہے یوں نگاہ ناز
اور مجھ کو خبر نہیں ہوتی
دل لگا کر سکوں غلط ساجدؔ
عاشقی چارہ گر نہیں ہوتی
غزل
شام غم کی سحر نہیں ہوتی
ساجد صدیقی لکھنوی