شام غم کی ہے عطا صبح مسرت دی ہے
زندگی نے ہمیں احساس کی دولت دی ہے
کیسے کیسے ترے احساس کی چٹانوں کو
میں نے لفظوں میں تراشا ہے تو صورت دی ہے
میری مٹھی میں ہے ہر خواب کی تعبیر مگر
تو نے اے وحشت دل کب مجھے مہلت دی ہے
اپنے ایثار تہہ لفظ و بیاں رکھے ہیں
تیرے اکرام کو سو طرح سے شہرت دی ہے
تم نے بے دام خریدے ہیں خوشی کے ساماں
ہم نے ہر ایک خوشی کی بڑی قیمت دی ہے
کتنے موہوم اشاروں سے پھر آنے کی مجھے
ڈبڈبائی ہوئی ان آنکھوں نے دعوت دی ہے

غزل
شام غم کی ہے عطا صبح مسرت دی ہے
رونق رضا