شام الم سے پہلے بھی صبح طرب کے بعد بھی
شوق طلب نہ مٹ سکا ترک طلب کے بعد بھی
پھر یہ وہی غم فراق پھر ہے وہی کسی کی یاد
اف یہ سیاہ بختوں رخصت شب کے بعد بھی
فرض تھا احترام دوست تک مگر نہ رک سکے
بات لبوں تک آ گئی پاس ادب کے بعد بھی
سارا غرور عاشقی خاک میں مل کے رہ گیا
ہو گیا ان کا سامنا ترک طلب کے بعد بھی
رونق زیست ہو گئی وقت کی تلخیوں میں گم
لب پہ ہنسی نہ آ سکی اذن طرب کے بعد بھی
جو بھی ہو اب مآل غم جو بھی ہو اب نصیب عشق
میں نے دیے صبا دیے عالم شب کے بعد بھی
چلئے مری خطا سہی اپنا کرم بھی دیکھیے
جام نہ مل سکا مجھے دور میں سب کے بعد بھی
غزل
شام الم سے پہلے بھی صبح طرب کے بعد بھی
معراج لکھنوی