شام اچھی ہے نہ سحر اچھی
یار بھیجو کوئی خبر اچھی
خوب پائی ہے یہ نظر اچھی
اس طرف ہے بری ادھر اچھی
ہے یہ تصویر کتنے چہروں کی
کہیں آنکھیں کہیں کمر اچھی
اب کہیں بھی نظر نہیں آتی
وہ جو تھی ایک رہ گزر اچھی
کس طرف جائے آدمی آخر
ہے فضا دشت میں کدھر اچھی
اس میں اچھا ہے کیا پتہ ناظمؔ
مجھ کو لگتی ہے وہ مگر اچھی
غزل
شام اچھی ہے نہ سحر اچھی
ناظم نقوی