شام آ کر جھروکوں میں بیٹھی رہے
ساعتوں میں سمندر پروتی رہے
موسموں کے حوالے ترے نام سے
دھوپ چھاؤں مرے دل میں ہوتی رہے
جی نہ چاہا تری محفلوں سے اٹھوں
بے بسی خالی نظروں سے تکتی رہے
تم نے مانگا ہے احساس اس ڈھنگ سے
پتھروں کی خموشی پگھلتی رہے
یوں گزرتے رہیں یاد کے قافلے
میری گلیوں میں رونق سی لگتی رہے
غزل
شام آ کر جھروکوں میں بیٹھی رہے
شائستہ مفتی