EN हिंदी
شاخ سے پھول کو پھر جدا کر دیا | شیح شیری
shaKH se phul ko phir juda kar diya

غزل

شاخ سے پھول کو پھر جدا کر دیا

حسن نظامی

;

شاخ سے پھول کو پھر جدا کر دیا
زخم پیڑوں کا کس نے ہرا کر دیا

ایک ٹکڑا خوشی کا تھا رکھا ہوا
جانے کس شخص نے لاپتہ کر دیا

کیوں تعلق کی بنیاد ڈھنے لگی
بے یقینی کو کس نے کھڑا کر دیا

پہلے منزل دکھائی مجھے اور پھر
بند چاروں طرف راستہ کر دیا

وقت خود اپنے چہرے سے ڈر جائے گا
میں نے احساس کو آئنہ کر دیا

کون خوش فہمیاں پالتا روز و شب
شکر ہے زندگی نے رہا کر دیا

وقت نے چال کیسی چلی اے حسنؔ
دوست جیسے کو دشمن نما کر دیا