EN हिंदी
شاخ امید جل گئی ہوگی | شیح شیری
shaKH-e-ummid jal gai hogi

غزل

شاخ امید جل گئی ہوگی

جون ایلیا

;

شاخ امید جل گئی ہوگی
دل کی حالت سنبھل گئی ہوگی

جونؔ اس آن تک بخیر ہوں میں
زندگی داؤ چل گئی ہوگی

اک جہنم ہے میرا سینہ بھی
آرزو کب کی گل گئی ہوگی

سوزش پرتو نگاہ نہ پوچھ
مردمک تو پگھل گئی ہوگی

ہم نے دیکھے تھے خواب شعلوں کے
نیند آنکھوں میں جل گئی ہوگی

اس نے مایوس کر دیا ہوگا
پھانس دل سے نکل گئی ہوگی

اب تو دل ہی بدل گیا اب تو
ساری دنیا بدل گئی ہوگی

دل گلی میں رقیب دل کا جلوس
واں تو تلوار چل گئی ہوگی

گھر سے جس روز میں چلا ہوں گا
دل کی دلی مچل گئی ہوگی

دھوپ یعنی کہ زرد زرد اک دھوپ
لال قلعے سے ڈھل گئی ہوگی

ہجر حدت میں یاد کی خوشبو
ایک پنکھا سا جھل گئی ہوگی

آئی تھی موج سبز باد شمال
یاد کی شاخ پھل گئی ہوگی

وہ دم صبح غسل خانے میں
میرے پہلو سے شل گئی ہوگی

شام صبح فراق دائم ہے
اب طبیعت بہل گئی ہوگی