شاخ مژگان محبت پہ سجا لے مجھ کو
برگ آوارہ ہوں صرصر سے بچا لے مجھ کو
رات بھر چاند کی ٹھنڈک میں سلگتا ہے بدن
کوئی تنہائی کے دوزخ سے نکالے مجھ کو
دور رہ کے بھی ہے ہر سانس میں خوشبو تیری
میں مہک جاؤں جو تو پاس بلا لے مجھ کو
میں تری آنکھ سے ڈھلکا ہوا اک آنسو ہوں
تو اگر چاہے بکھرنے سے بچا لے مجھ کو
شب غنیمت تھی کہ یہ زخم نظارہ تو نہ تھا
ڈس گئے صبح تمنا کے اجالے مجھ کو
میں منقش ہوں تری روح کی دیواروں پر
تو مٹا سکتا نہیں بھولنے والے مجھ کو
صبح سے شام ہوئی روٹھا ہوا بیٹھا ہوں
کوئی ایسا نہیں آ کر جو منا لے مجھ کو
تہہ بہ تہہ موج طلب کھینچ رہی ہے محسنؔ
کوئی گرداب تمنا سے نکالے مجھ کو
غزل
شاخ مژگان محبت پہ سجا لے مجھ کو
محسن احسان