شاخ ارماں کی وہی بے صبری آج بھی ہے
موجب گریۂ شام و سحری آج بھی ہے
وہی آئینہ بکف دیدہ وری آج بھی ہے
ان میں پہلے کی طرح خود نگری آج بھی ہے
سنگ باروں کے لیے درد سری آج بھی ہے
کل گراں تھی جو مری شیشہ گری آج بھی ہے
آج بھی مورد الزام ہے معصوم نگاہ
جرم الزام سے کل بھی تھا بری آج بھی ہے
بات دشواریٔ منزل کی نئی بات نہیں
راہ پہلے بھی تھی کانٹوں سے بھری آج بھی ہے
غزل
شاخ ارماں کی وہی بے صبری آج بھی ہے
احمد عظیم آبادی