شاعری میری تپسیا لفظ ہے برگد مرا
یہ زمیں ساری زمیں مشفق زمیں معبد مرا
میں گیا کی روشنی ہوں میں حرا کا نور ہوں
تو فنا کے ہاتھ سے کیوں ناپتا ہے قد مرا
دھیان کے گونگے سفر سے بھی نکل جاؤں مگر
راستہ روکے کھڑی ہے سانس کی سرحد مرا
عمر بھر سورج تھا سر پر دھوپ تھی میرا لباس
اب یہ خواہش ہے گھنی چھاؤں میں ہو مرقد مرا
کہہ دیا تھا میں پرانی سوچ کا شجرہ نہیں
آج تک منہ دیکھتے ہیں میرے خال و خد مرا
مجھ سے آگے بھی ہیں کچھ تازہ صداؤں کے علم
میں ظفرؔ کا لاڈلا ہوں پیش رو امجدؔ مرا
غزل
شاعری میری تپسیا لفظ ہے برگد مرا
نثار ناسک