شاہراہیں نہیں ڈگر تو ہے
منزلیں نا سہی سفر تو ہے
دور صحرا میں ایک چھوٹا سا
بے ثمر ہی سہی شجر تو ہے
مختصر گو ہے داستان مری
اس کے انجام میں اثر تو ہے
ظلمت شب گراں ہے یہ مانا
رات کے بعد پھر سحر تو ہے
ہیں دریچے اداس در ویراں
کچھ نہیں پھر بھی اپنا گھر تو ہے
میرے الفاظ میں کشش نہ سہی
میری آواز میں اثر تو ہے

غزل
شاہراہیں نہیں ڈگر تو ہے
جگدیش پرکاش