شاعری مجھ کو عجب حال میں لے جاتی ہے
کبھی ماتم کبھی دھمال میں لے جاتی ہے
میں کسی چشم نگہ دار کی حد میں ہوں کہ جو
مجھ کو واپس مرے احوال میں لے جاتی ہے
میری خواہش بڑی تفصیل طلب ہے لیکن
تیری صورت مجھے اجمال میں لے جاتی ہے
میں بچھاتا ہوں مصلیٰ سر محراب نیاز
پھر عبادت مجھے پاتال میں لے جاتی ہے
میں تو سنتا ہی نہیں ہوں کوئی گفتار خرد
یہ کبھی قیل کبھی قال میں لے جاتی ہے
راس آئی نہ مجھے آئنہ خانے کی چمک
یہ مری شکل کو اشکال میں لے جاتی ہے
خود فراموشی کی اک لہر کہیں سے آ کر
ایک دو بار مجھے سال میں لے جاتی ہے
اس لیے سوتا نہیں میں کہ نگار دنیا
خیمۂ خواب سے پنڈال میں لے جاتی ہے
غزل
شاعری مجھ کو عجب حال میں لے جاتی ہے
عارف امام