صحن آئندہ کو امکان سے دھوئے جائیں
بانجھ ہے قریۂ جاں آئیے روئے جائیں
اس سحر زادی کی پیشانی کو چومیں جھومیں
خود میں خورشید بنیں شب میں پروئے جائیں
گھڑیاں کاندھوں پہ رکھے یہ مرے پیڑ سے لوگ
صبح سے شام تلک دھوپ کو ڈھوئے جائیں
خواب دیرینہ کا منظر بھی عجب منظر ہے
ہم تری گود میں جاگیں بھی تو سوئے جائیں
دشت دل میں کوئی پگڈنڈی بنائیں اس پر
ڈھونڈنے جائیں اسے دشت میں کھوئے جائیں
غزل
صحن آئندہ کو امکان سے دھوئے جائیں
حماد نیازی