EN हिंदी
صحن آئندہ کو امکان سے دھوئے جائیں | شیح شیری
sehan-e-ainda ko imkan se dhoe jaen

غزل

صحن آئندہ کو امکان سے دھوئے جائیں

حماد نیازی

;

صحن آئندہ کو امکان سے دھوئے جائیں
بانجھ ہے قریۂ جاں آئیے روئے جائیں

اس سحر زادی کی پیشانی کو چومیں جھومیں
خود میں خورشید بنیں شب میں پروئے جائیں

گھڑیاں کاندھوں پہ رکھے یہ مرے پیڑ سے لوگ
صبح سے شام تلک دھوپ کو ڈھوئے جائیں

خواب دیرینہ کا منظر بھی عجب منظر ہے
ہم تری گود میں جاگیں بھی تو سوئے جائیں

دشت دل میں کوئی پگڈنڈی بنائیں اس پر
ڈھونڈنے جائیں اسے دشت میں کھوئے جائیں