سوال اس سے ہمارا کہاں نباہ کا ہے
مطالبہ ہے مگر صرف اک نگاہ کا ہے
ہمیشگی کے مراسم تو دل کو راس نہیں
علاج اس کا وہی ربط گاہ گاہ کا ہے
میں دین عشق میں توحید کا جو قائل ہوں
تو معجزہ یہ ترے حسن بے پناہ کا ہے
وصال و ہجر سے میں کس کا انتخاب کروں
یہاں پہ خود سے مجھے خوف اشتباہ کا ہے
خبر نہیں ہے ابھی اس کی کم نگاہی کو
کہ ایک مرحلہ خود یہ بھی رسم و راہ کا ہے
مورخوں کو کسی اور پر نہ شک گزرے
کہ مجھ کو مارنے والا مری سپاہ کا ہے

غزل
سوال اس سے ہمارا کہاں نباہ کا ہے
معین نظامی