سوال کیسے کروں میں اس سے جواب ہے جو مری دعا کا
کرے گا کیسے وہ بے وفائی مجھے یقیں ہے مری وفا کا
نہ اس سے ملنے کی ہے تمنا نہ اس کو پانے کی آرزو ہے
دیا محبت کا جل رہا ہے جو جی میں آئے کرے ہوا کا
جو بادلوں پر میں چل رہی ہوں تو آسمانوں کو چھو رہی ہوں
کہ ساتھ میرے ہی چل رہا ہے وہ ہاتھ تھامے ہوئے گھٹا کا
میں اس کے شعروں میں ڈھل رہی ہوں وہ میرا لہجہ بدل رہا ہے
میں چپ رہوں اور کہوں نہ کچھ بھی یہی تقاضہ تو ہے حیا کا
بھلانے بیٹھی ہوں ساری دنیا دھڑک رہا ہے وہ میرے دل میں
جو دوریاں ہیں سمندروں کی وہ فاصلہ ہے بس اک صدا کا

غزل
سوال کیسے کروں میں اس سے جواب ہے جو مری دعا کا
الماس شبی