سوال گونج کے چپ ہیں جواب آئے نہیں
جو آنے والے تھے وہ انقلاب آئے نہیں
یہ کیا حضر کہ سفر کی ضرورتیں ہی نہ ہوں
یہ کیا سفر کہ کہیں پر سراب آئے نہیں
وہ ایک نیند کی جو شرط تھی ادھوری رہی
ہماری جاگتی آنکھوں میں خواب آئے نہیں
دعا کرو کہ خزاں میں ہی چند پھول کھلیں
کہ اب کے موسم گل میں گلاب آئے نہیں
مجھے تو آج کے کرب و بلا سے فرصت کب
تم ان کی چاپ سنو جو عذاب آئے نہیں
غزل
سوال گونج کے چپ ہیں جواب آئے نہیں
راشد جمال فاروقی