سوال دل کا شام غم کو اور اداس کر گیا
ترے وجود میں جو ایک میں تھا وہ کدھر گیا
طلسم شوق فکر زندہ اور کرب آگہی
تمام عمر کا سفر نگاہ سے گزر گیا
چلے تو حوصلہ جواں تھا موج گل تھی آرزو
جدھر بھی آنکھ اٹھ گئی سماں نکھر نکھر گیا
کبھی اندھیری شب میں اک مہیب دشت سامنے
کبھی مہ تمام ساتھ ساتھ تا سحر گیا
ہر ایک دور منفرد تھا اب بھی دل پہ نقش ہے
گیا تو یوں لگا کہ جی کا ایک حصہ مر گیا
نہ یاد کی چبھن کوئی نہ کوئی لو ملال کی
میں جانے کتنی دور یونہی خود سے بے خبر گیا
نگاہ دوست دل نواز بھی گرہ کشا بھی تھی
کھلا جو دل پہ زندگی کا بھید جی ٹھہر گیا
جہاں وجود میں تھا ''میں'' اب ایک اور نام ہے
کہ میرا بگڑا ہوا کام اس کے لطف سے سنور گیا
وہ سیل نور شب کی ابتدا سے تا سحر گیا
دل اس کے بل پہ اپنے بحر غم کے پار اتر گیا
غزل
سوال دل کا شام غم کو اور اداس کر گیا
حمید نسیم