EN हिंदी
سواد شوق و طلب غم کا باب ایسا تھا | شیح شیری
sawad-e-shauq-o-talab gham ka bab aisa tha

غزل

سواد شوق و طلب غم کا باب ایسا تھا

علی وجدان

;

سواد شوق و طلب غم کا باب ایسا تھا
جلا کے خاک کیا اضطراب ایسا تھا

بہت ہی تلخ تھا یعنی شراب ایسا تھا
سوال یاد نہیں ہے جواب ایسا تھا

تمازتوں نے غم ہجر کی اجاڑ دیا
بدن تھا پھول سا چہرہ کتاب ایسا تھا

میں کانپ کانپ گیا ہوں بنام سود و زیاں
شمار زخم ہنر کا جواب ایسا تھا

سلگ رہے تھے مرے ہونٹ جل رہا تھا بدن
زباں سے کچھ نہ کہا تھا حجاب ایسا تھا

مری طلب ہی بنی میرے پاؤں کی زنجیر
بھٹک رہا ہوں میں اب تک سراب ایسا تھا

جھلس کے رہ گیا چہرہ تمام خوابوں کا
خمار تشنہ لبی کا عذاب ایسا تھا

وہ عہد گمرہی کہتا ہے اس کی مرضی ہے
جو دیکھ لے تو تڑپ جائے خواب ایسا تھا

بہت ہی زعم تھا اپنی محبتوں پہ اسے
نبھا سکا نہ وفا کامیاب ایسا تھا

رفاقتوں کا فسوں ٹوٹنا ہی تھا وجدانؔ
سفر میں چھوڑ گیا ہے خراب ایسا تھا