EN हिंदी
سواد شہر میں تھوڑی سی یہ جو جنت ہے | شیح شیری
sawad-e-shahr mein thoDi si ye jo jannat hai

غزل

سواد شہر میں تھوڑی سی یہ جو جنت ہے

رضا اشک

;

سواد شہر میں تھوڑی سی یہ جو جنت ہے
ہمارے عہد کے نمرود کی وراثت ہے

تمام ملک میں اس کی غزل کی شہرت ہے
ہمارے شہر میں اک شخص شاد و حسرت ہے

غزل غزل نہیں فن کی عظیم دولت ہے
یہ میرؔ و غالبؔ و اقبالؔ کی امانت ہے

نہ معجزہ کوئی الہام نہ رسالت ہے
یزید و شمر ہیں لاکھوں خدا کی قدرت ہے

ابھی ہے دیر ذرا دھوپ کے اترنے میں
فصیل شب سے بھی اونچی حصار ظلمت ہے

عجیب وقت ہے اب دوستوں کے چاقو کو
مرے قلم کی نہیں انگلیوں کی حسرت ہے