سواد شام غم میں یوں تو دیر تک جلا چراغ
نہ جانے کیوں تھکا تھکا اداس اداس تھا چراغ
پھر اس کے بعد عمر بھر یہ جستجو رہی مجھے
کہ ایک شب گزار کے کہاں چلا گیا چراغ
وہ کب سے تھا وہ کون تھا کوئی تو میرے ساتھ تھا
مرے سفر میں یک بہ یک کہاں سے آ گیا چراغ
بجھا سکے تو اب تجھے مری صلائے عام ہے
فصیل جاں پہ اے ہوا جلا کے رکھ دیا چراغ
میں خوگر ستم بھی ہوں ادا شناس غم بھی ہوں
مجال کیا ہوائے غم بجھا سکے مرا چراغ
وجود غم بچا لیا یہ بات کوئی کم نہیں
ہوائے غم کے سامنے لرز کے رہ گیا چراغ
غزل
سواد شام غم میں یوں تو دیر تک جلا چراغ
ناظر صدیقی