EN हिंदी
سودائے عشق یوں بھی اترنا تو ہے نہیں | شیح شیری
sauda-e-ishq yun bhi utarna to hai nahin

غزل

سودائے عشق یوں بھی اترنا تو ہے نہیں

پرویز ساحر

;

سودائے عشق یوں بھی اترنا تو ہے نہیں
یہ زخم روح ہے اسے بھرنا تو ہے نہیں

سو بار آئنہ بھی جو دیکھیں تو فائدہ؟
صورت کو خود بخود ہی سنورنا تو ہے نہیں

مجھ کو خبر ہے دہر میں زندہ رہوں گا میں
بلھےؔ کی طرح مر کے بھی مرنا تو ہے نہیں

جس لہر کو نگل گئی اک لہر دوسری
اس لہر کو دوبارہ ابھرنا تو ہے نہیں

تو جو یقین کر لے کہ وہ ہے تو پھر وہ ہے
شے کا وجود اصل میں ورنہ تو ہے نہیں!

دھرنائی کی طرح سے جو دھرنا بھی دوں تو کیا؟
دھرتی پہ اس نے پھر بھی اترنا تو ہے نہیں

کرتا ہوں خود ہی مبحث و تقریر سے گریز
ترک تعلق آپ سے کرنا تو ہے نہیں

وہ جس کو اپنے آپ سے لگتا نہیں ہے ڈر
اس کو خدا کی ذات سے ڈرنا تو ہے نہیں

کیوں اس کے انتظار میں بیٹھا ہوں دیر سے؟
اس رہگزر سے اس نے گزرنا تو ہے نہیں

ساحرؔ یہ میرا دیدۂ گریاں ہے اور میں
صحرا میں کوئی دوسرا جھرنا تو ہے نہیں