EN हिंदी
سو صدیوں کا نوحہ ہے | شیح شیری
sau sadiyon ka nauha hai

غزل

سو صدیوں کا نوحہ ہے

بلقیس خان

;

سو صدیوں کا نوحہ ہے
تم کہتے ہو نغمہ ہے

دھول اڑاتی جھریوں میں
تہذیبوں کا ملبہ ہے

مٹی کے دو کوزوں میں
کچھ خوابوں کا گریہ ہے

ریشم ہی سے ادھڑے گا
یہ پھولوں کا بخیہ ہے

جتنا بھی تم صاف کرو
دھبہ آخر دھبہ ہے

اس گھر کی ویرانی کا
جنگل جیسا حلیہ ہے

در آتی ہے چپکے سے
یاد پہ کس کا پہرہ ہے

آنکھوں کی ویرانی سے
دل کو لاحق خطرہ ہے