سو صدیوں کا نوحہ ہے
تم کہتے ہو نغمہ ہے
دھول اڑاتی جھریوں میں
تہذیبوں کا ملبہ ہے
مٹی کے دو کوزوں میں
کچھ خوابوں کا گریہ ہے
ریشم ہی سے ادھڑے گا
یہ پھولوں کا بخیہ ہے
جتنا بھی تم صاف کرو
دھبہ آخر دھبہ ہے
اس گھر کی ویرانی کا
جنگل جیسا حلیہ ہے
در آتی ہے چپکے سے
یاد پہ کس کا پہرہ ہے
آنکھوں کی ویرانی سے
دل کو لاحق خطرہ ہے
غزل
سو صدیوں کا نوحہ ہے
بلقیس خان