سرزد ہوئی تھی ایک خطا کھیل کھیل میں
پھر میں اسیر ہو گیا پیکر کے جیل میں
اب لوٹ کر بدل گئی رت پھول کھل گئے
دیوار پر لٹکتی ہوئی زرد بیل میں
کتنے سمے فراق کے دہرا گئے مجھے
کتنی رتیں بکھر گئیں دو پل کے میل میں
شعلوں کا رقص تجھ کو نہیں تھا اگر پسند
یہ آگ کیوں لگائی تھی مٹی کے تیل میں

غزل
سرزد ہوئی تھی ایک خطا کھیل کھیل میں
مراتب اختر