صرصر چلی وہ گرم کہ سائے بھی جل گئے
صحرا میں آ کے یاروں کے حلیے بدل گئے
جب راکھ ہو کے رہ گیا وہ شہر گل رخاں
پھر اس طرف کو بادلوں کے دل کے دل گئے
تن کر کھڑا رہا تو کوئی سامنے نہ تھا
جب جھک گیا تو ہر کسی کے وار چل گئے
کچھ دکھ کی روشنی تھی بڑی تیز اور کچھ
اشکوں کی بارشوں سے بھی چہرے اجل گئے
اک رنگ تھا لہو کا جو اشکوں میں آ گیا
کچھ دل کے درد تھے سو وہ شعروں میں ڈھل گئے
اقبالؔ مثل موج ہوا کب تلک سفر
کیا جانے کس طرف کو وہ چاہت کے یل گئے

غزل
صرصر چلی وہ گرم کہ سائے بھی جل گئے
اقبال منہاس