EN हिंदी
سرسبز تھے حروف پہ لہجے میں حبس تھا | شیح شیری
sarsabz the huruf pa lahje mein habs tha

غزل

سرسبز تھے حروف پہ لہجے میں حبس تھا

طارق جامی

;

سرسبز تھے حروف پہ لہجے میں حبس تھا
کیسے عجب مزاج کا مالک وہ شخص تھا

پھر دوسرے ہی دن تھا عجب اس شجر کا حال
سبزے کی ان منڈیروں پہ پت جھڑ کا رقص تھا

تجزیہ کرتا ہوں تو ندامت ہی ہوتی ہے
در اصل میرے اپنے روئیے میں نقص تھا

گو وہ رہا سدا سے مرا منحرف مگر
اس کی ہر ایک طرز پہ میرا ہی عکس تھا

حائل تھے دشت لفظوں کی تفہیم میں مگر
اس کے شفیق لہجے میں دھرتی کا لمس تھا