EN हिंदी
سروں پہ سایہ غبار سفر کے جیسا ہے | شیح شیری
saron pe saya ghubar-e-safar ke jaisa hai

غزل

سروں پہ سایہ غبار سفر کے جیسا ہے

شفق سوپوری

;

سروں پہ سایہ غبار سفر کے جیسا ہے
کڑکتی دھوپ کا شعلہ شجر کے جیسا ہے

اسی میں ہو کے رواں گم ہمیں بھی ہونا ہے
غبار سامنے کچھ رہ گزر کے جیسا ہے

اسے بھی سیل لہو میں ہی ڈوب جانا ہے
دیار غم کا مقدر جگر کے جیسا ہے

ٹپک کے داغ بنے گا نصیب دامن سے
وہ قطرہ جو کہ بظاہر گہر کے جیسا ہے