سروں پہ سایہ غبار سفر کے جیسا ہے
کڑکتی دھوپ کا شعلہ شجر کے جیسا ہے
اسی میں ہو کے رواں گم ہمیں بھی ہونا ہے
غبار سامنے کچھ رہ گزر کے جیسا ہے
اسے بھی سیل لہو میں ہی ڈوب جانا ہے
دیار غم کا مقدر جگر کے جیسا ہے
ٹپک کے داغ بنے گا نصیب دامن سے
وہ قطرہ جو کہ بظاہر گہر کے جیسا ہے

غزل
سروں پہ سایہ غبار سفر کے جیسا ہے
شفق سوپوری