سروں پر تاج رکھے تھے قدم پر تخت رکھا تھا
وہ کیسا وقت تھا مٹھی میں سارا وقت رکھا تھا
وہ تنہا خاکساری تھی نبھایا عمر بھر اس نے
مزاج شاہ عالمگیر ورنہ سخت رکھا تھا
بہت سامان تھا گھر میں بہت سی نعمتیں بھی تھیں
مسافر نے مگر اپنا سفر بے رخت رکھا تھا
گرے تھے دھیرے دھیرے سارے کنگورے زمانے کے
حویلی میں تو اب کے لا مکاں یک لخت رکھا تھا
میں سب کو چھوڑ کر دنیا ترے رستے پہ آ جاتا
مگر اس راستے میں بھی دل کم بخت رکھا تھا
غزل
سروں پر تاج رکھے تھے قدم پر تخت رکھا تھا
خورشید اکبر

