EN हिंदी
سرشک خوں سر مژگاں کبھی پروئے نہ تھے | شیح شیری
sarishk-e-KHun sar-e-mizhgan kabhi piroe na the

غزل

سرشک خوں سر مژگاں کبھی پروئے نہ تھے

محسن احسان

;

سرشک خوں سر مژگاں کبھی پروئے نہ تھے
ہم اتنا ہنسنے کے بعد اس طرح سے روئے نہ تھے

ستم یہ ہے کہ وہ خورشید کاٹنے آئے
تمام عمر ستارے جنہوں نے بوئے نہ تھے

اب آپ اپنی تمناؤں سے ہوں شرمندہ
یہ داغ وہ ہیں جو میں نے لہو سے دھوئے نہ تھے

بہے وہ اشک کہ غرقاب ہو گئیں آنکھیں
سفینے اس طرح ہم نے کبھی ڈبوئے نہ تھے

چراغ لاؤ کوئی آفتاب ہی ڈھونڈیں
ہم اس قدر کبھی تاریکیوں میں کھوئے نہ تھے

اک آہ سرد کے بعد آنکھیں موند لیں محسنؔ
یہ کیا ہوا کبھی ٹھنڈی ہوا میں سوئے نہ تھے