سرشک غم کی روانی تھمی ہے مشکل سے
جو بات کہنی تھی ان سے کہی ہے مشکل سے
نہ جانے اہل جنوں پر اب اور کیا گزرے
ابھی تو فصل بہاراں کٹی ہے مشکل سے
شب فراق نہ پوچھو کہ کس طرح گزری
سحر ہوئی تو ہے لیکن ہوئی ہے مشکل سے
لگا ہوا ہے یہ دھڑکا کہ بجھ نہ جائے کہیں
ہوا میں شمع محبت جلی ہے مشکل سے
کہاں تھی منزل مقصود اپنی قسمت میں
کسی کی راہ گزر بھی ملی ہے مشکل سے
غزل
سرشک غم کی روانی تھمی ہے مشکل سے
افسر ماہ پوری