سریر سلطنت سے آستان یار بہتر تھا
ہمیں ظل ہما سے سایۂ دیوار بہتر تھا
مجھے دکھ پھر دیا تو نے منڈا کر سبزۂ خط کو
جراحت کو مرے وہ مرہم زنگار بہتر تھا
مجھے زنجیر کرنا کیا مناسب تھا بہاراں میں
کہ گل ہاتھوں میں اور پاؤں میں میرے خار بہتر تھا
ہموں نے ہجر سے کچھ وصل میں دھڑکے بہت دیکھے
ہمارے حق میں اس راحت سے وہ آزار بہتر تھا
مرا دل مر گیا جس دن کہ نظارہ سے باز آیا
یقیںؔ پرہیز اگر کرتا تو یہ بیمار بہتر تھا

غزل
سریر سلطنت سے آستان یار بہتر تھا
انعام اللہ خاں یقینؔ