سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا
سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا
آج تک ہیں اسی کوچے میں نگاہیں آباد
صورتیں اچھی چراغ اچھے دریچہ اچھا
ایک چلو سے بھرے گھر کا بھلا کیا ہوگا
ہم کو بھی نہر سے پیاسا پلٹ آنا اچھا
پھول چہروں سے بھی پیارے تو نہیں ہیں جنگل
شام ہو جائے تو بستی ہی کا رستہ اچھا
رات بھر رہتا ہے زخموں سے چراغاں دل میں
رفتگاں تم نے لگا رکھا ہے میلہ اچھا
جا کے ہم دیکھ چکے بند ہے دروازۂ شہر
ایک رات اور یہ رکنے کا بہانہ اچھا
غزل
سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا
عرفانؔ صدیقی