سرحد جسم پہ حیران کھڑا تھا میں بھی
اپنے ہی ساتھ سر دار لڑا تھا میں بھی
واسطہ مجھ کو ثمر سے تھا نہ ترغیب سے تھا
نیم وا ہاتھوں میں مٹی کا گھڑا تھا میں بھی
روزن وقت میں دم دار صدا تھی کس کی
سانپ کی راہ میں گٹھری میں پڑا تھا میں بھی
اس کے سینے میں جہنم تھا لہو بھی لیکن
ایک سولی کی طرح ساتھ گڑا تھا میں بھی
کرۂ ارض پہ نقطے کا نشاں تھا ورنہ
اپنے سائے کی ضخامت سے بڑا تھا میں بھی
لوگ آویزش تقریب میں کس کو روتے
زیست کا کوس تو تھا اس سے گڑا تھا میں بھی
کتنی تاریک شعاعوں سے لہو بھی ٹپکا
تیری آنکھوں میں سر شام جڑا تھا میں بھی

غزل
سرحد جسم پہ حیران کھڑا تھا میں بھی
رشید نثار