سرحد آواز دل کا دور سے پتھر نہ دیکھ
طائر شوق نوا طوفان کے تیور نہ دیکھ
مطلع انوار ہے گو آج تیرا آسماں
ڈوبتے سورج کی کرنوں کو مگر تن کر نہ دیکھ
دے لب خاموش تک آئی ہوئی باتوں پہ دھیان
گر سر مژگاں کھلا اک درد کا دفتر نہ دیکھ
برگ خشک و تر رہ زیر و زبر اک واہمہ
اے ادائے کجروی اب شوخیٔ صرصر نہ دیکھ
اس کے جلووں سے پرے اک درد کی آواز سن
خواب کی تعبیر سے ڈر خواب کا محور نہ دیکھ
صاف گوئی جزو ایماں ہے تو ناصرؔ بے جھجک
جی میں جو آ جائے کہہ دے جانب منبر نہ دیکھ
غزل
سرحد آواز دل کا دور سے پتھر نہ دیکھ
ناصر الدین