سرگزشت دل کو روداد جہاں سمجھا تھا میں
مختصر سی بات کو اک داستاں سمجھا تھا میں
بن گئی میرے لیے اک اضطراب مستقل
جس محبت کو سکون قلب و جاں سمجھا تھا میں
وہ بھی میری گردش تقدیر کا اک دور تھا
جس کو اب تک انقلاب آسماں سمجھا تھا میں
وہ تو یہ کہئے محبت نے ہی آنکھیں کھول دیں
زندگی کو ورنہ اک راز نہاں سمجھا تھا میں
رشک رہ رہ کر نہ کیوں آئے نصیب غیر پر
وہ اسی محفل میں شامل تھے جہاں سمجھا تھا میں
تھا حرم کی سرزمیں پر لطف اندوز سجود
یعنی کعبے کو تمہارا آستاں سمجھا تھا میں
وادئ غربت میں یوں گم کردہ منزل تھا شکیلؔ
رہزن منزل کو خضر کارواں سمجھا تھا میں
غزل
سرگزشت دل کو روداد جہاں سمجھا تھا میں
شکیل بدایونی