سرد رتوں میں لوگوں کو گرمی پہنچانے والے ہاتھ
برف کے جیسے ٹھنڈے کیوں ہیں اون بنانے والے ہاتھ
مٹی کے پیالوں میں ہر دن صبح سے اپنی شام کریں
رنگ برنگے پھولوں سے گلدان سجانے والے ہاتھ
ایسے تھے حالات کہ چھوٹا ان کا میرا ساتھ مگر
یاد بہت آتے ہیں وہ چوڑی کھنکانے والے ہاتھ
دفتر سے میں گھر لوٹوں تو پوچھے مجھ سے تنہائی
کب آئیں گے راتوں کی تقدیر جگانے والے ہاتھ
سورج چاند ستارے جگنو جو چاہو سو نذر کریں
نگری نگری آشاؤں کے دیپ جلانے والے ہاتھ
جرم نہیں ہے سچائی تو بے جا کیوں معتوب ہوئے
سچائی کا دنیا میں پرچم لہرانے والے ہاتھ
دریا میں طوفان ہے لیکن ہے اب بھی امید ظفرؔ
پار لگا دیں گے ہم کو پتوار چلانے والے ہاتھ
غزل
سرد رتوں میں لوگوں کو گرمی پہنچانے والے ہاتھ
ظفر کلیم