EN हिंदी
سرد رشتوں کی برف پگھلی ہے | شیح شیری
sard rishton ki barf pighli hai

غزل

سرد رشتوں کی برف پگھلی ہے

پوجا بھاٹیا

;

سرد رشتوں کی برف پگھلی ہے
دھوپ مدت کے بعد نکلی ہے

نیند آنکھوں سے یہ چرائے گی
گشت پر یاد پھر سے نکلی ہے

ہر نئی لہر میں نیا پانی
وہ جو پچھلی تھی اب وہ اگلی ہے

رنگ وہ ہی بھرے گی دونوں میں
اپنی یادوں کی وہ جو تتلی ہے

پھوٹ پانی میں پڑ گئی ہے کیا
لہر دریا بنانے نکلی ہے

میرے جینے کو بس یہ ہے کافی
تو ہے بارش ہے اور تتلی ہے

بے خیالی میں گر پڑی ہوگی
وہ نہیں جانتی وہ بجلی ہے

چاند کو چگ گیا تھا اک پنچھی
چاندنی پھر کہاں سے نکلی ہے

وجہ تم ہی تھے میرے جینے کی
وجہ اب بھی کہاں یہ بدلی ہے

اڑتی ہے غم لئے پروں پر جو
کیسی خوش رنگ سی وہ تتلی ہے

تجھ سے تصویر تیری اچھی ہے
بعد مدت بھی وہ نہ بدلی ہے