سرد مہری سے تری دل جو تپاں رکھتے ہیں
ہمہ تن برف ہیں آہوں میں دھواں رکھتے ہیں
سیل غم آنکھ کے پردے میں نہاں رکھتے ہیں
ناتواں بھی ترے کیا تاب و تواں رکھتے ہیں
فرش رہ کس کے لئے ہم دل و جاں رکھتے ہیں
خوبرو پاؤں زمیں پر ہی کہاں رکھتے ہیں
بات میں بات اسی کی ہے سنو تم جس کی
یوں تو کہنے کو سبھی منہ میں زباں رکھتے ہیں
جب سے دشوار ہوا سانس کا آنا جانا
ہم نگاہوں میں جہان گزراں رکھتے ہیں
کس سے بے دردیٔ احباب کا شکوہ کیجے
نام بے تابئ دل کا خفقاں رکھتے ہیں
آنکھ کھولی ہے تو صیاد کے گھر کھولی ہے
ہم قفس پر ہی نشیمن کا گماں رکھتے ہیں
پھول بھی منہ سے جھڑیں بات بھی کانٹے کی رہے
یہ ادا اور سخن ساز کہاں رکھتے ہیں
لوگ روتے بھی ہیں تربت میں لٹا کر اے اشکؔ
اور سینے پہ بھی اک سنگ گراں رکھتے ہیں
غزل
سرد مہری سے تری دل جو تپاں رکھتے ہیں
اشک رامپوری