سرد آج کل اس درجہ زمانے کی ہوا ہے
انجام کے احساس سے دل کانپ رہا ہے
وہ شکل جو آتے ہی نظر ہو گئی غائب
جادو ہے کہ بجلی کہ چھلاوا کہ بلا ہے
کشمیر جسے کہتے ہیں سب غیرت فردوس
جب تو ہی نہیں ہے پاس تو دوزخ سے سوا ہے
کہسار پر یہ ابر کے پھرتے ہوئے سائے
اک عالم شاداب تجھے ڈھونڈ رہا ہے
گر بادلہ سر پر ہے تو مخمل ہے تہہ پا
القصہ عجب منظر پر زیب و ضیا ہے
آ اور مری چشم تصور میں سما جا
آئینہ ترا دیر سے بے عکس پڑا ہے
اے فوقؔ میں ہوں اس لیے محتاج رفاقت
تنہا رہ منزل میں کوئی چھوڑ گیا ہے
غزل
سرد آج کل اس درجہ زمانے کی ہوا ہے
محی الدین فوق