سراپا ترا کیا قیامت نہیں ہے؟
ادھر حشر سی دل کی حالت نہیں ہے
محبت مری کیا عبادت نہیں ہے
وہ اک نور ہے جس کی صورت نہیں ہے
ترے ان لبوں کو میں تشبیہ کیا دوں؟
کہ پھولوں میں ایسی نزاکت نہیں ہے
ہے چاہت کہوں روپ تیرا غزل میں
مگر مجھ میں حسن خطابت نہیں ہے
بیاں ہو رہی ہے جو آنکھوں سے تیری
پڑھی میں نے ایسی حکایت نہیں ہے
وہ جب بولتا ہے مدھر بولتا ہے
کسی شے میں ایسی حلاوت نہیں ہے
میں تعریف تیری کروں بھی تو کیسے؟
زبان و بیاں پر وہ قدرت نہیں ہے
ہے آلوکؔ میری غزل جان محفل
پر اس کو جو بھائے وہ رنگت نہیں ہے

غزل
سراپا ترا کیا قیامت نہیں ہے؟
آلوک یادو