EN हिंदी
سراب دیکھتا ہوں میں کہ آب دیکھتا ہوں میں | شیح شیری
sarab dekhta hun main ki aab dekhta hun main

غزل

سراب دیکھتا ہوں میں کہ آب دیکھتا ہوں میں

ماہر عبدالحی

;

سراب دیکھتا ہوں میں کہ آب دیکھتا ہوں میں
سمجھ میں جو نہ آ سکے وہ خواب دیکھتا ہوں میں

لہوں میں تیرتی ہے کوئی شے تری امید سی
اگا ہوا شفق میں آفتاب دیکھتا ہوں میں

مری نظر کے سامنے ہے آئنہ رکھا ہوا
تری نظر کا حسن انتخاب دیکھتا ہوں میں

یہ کس مقام پر ہے آج رخش فکر و آگہی
کہ جبرئیل کو بھی ہم رکاب دیکھتا ہوں میں

یہ کوئی نذر تو نہیں نگاہ دل نواز کی
کھلا ہوا جو دل میں اک گلاب دیکھتا ہوں میں

کسی کا دامن طلب کشادہ اس قدر نہیں
تری عطا کو بے حد و حساب دیکھتا ہوں میں

سمجھ سکے گا کون اے خدا تری کتاب کو
بدل گیا ہے سب کا سب نصاب دیکھتا ہوں میں

ابھی تو سن رہا ہوں میں گڑھی ہوئی کہانیاں
کھلے گا کب حقیقتوں کا باب دیکھتا ہوں میں

دل و نظر کی روشنی ہے جس کے حرف حرف میں
رکھی ہوئی وہ طاق پر کتاب دیکھتا ہوں میں

جو کھیلنے میں تیز تھا نواب ہو گیا ہے وہ
پڑھے لکھے کو خستہ و خراب دیکھتا ہوں میں

وہ ہوشیار آدمی کہ جاگتا ہے رات دن
کبھی کبھی اسے بھی مست خواب دیکھتا ہوں میں

جو ماہرؔ الم زدہ کے لب پہ آ گئی ہنسی
تو کھا رہا ہے کوئی پیچ و تاب دیکھتا ہوں میں